دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک فائدہ تو یہ ہو اکہ اقوام متحدہ سمیت ایسے ادارے وجود میں آئے جن کا کام تمام ممالک پر نظر رکھ کر اقدامات اُٹھانا اور اگر کسی ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں تو اُس کی نشاندہی کرنا،،، اگر کسی ملک میں کمزور کو بزور طاقت دبایا جا رہا ہے تو اُسے روکنا،،، اور اگر کہیں جمہوری ملک میں جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہو تو اُسے درست کرنا اور اگر کہیں کوئی معاشی طور پر دیوالیہ ہو رہا ہو تو اُس کو مدد فراہم کرنا( لیکن فی الوقت تو یہ الگ بات ہے کہ معاشی طور پر ٹھیک کرنے کے بہانے طاقتور ملک کمزور ممالک کو اپنے نرغے میں لے رہے ہیں) لیکن ان اداروں کا 80سے 90فیصد فائدہ ہی ہو رہا ہے ،،، کیوں کہ پاکستان، شام، برما ، سوڈان، افغانستان، عراق ، ایران جیسے ممالک میں انسانی حقوق کو پامال کرنے کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں،،، پھر یہ ادارے ایسی جگہوں پر انویسٹ کرتے ہیں تاکہ معاملات بہتر ہوں اور پسے ہوئے یا مظلوم طبقے کی آواز بن سکیں۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران جو کچھ ہوا، وہ ہم تو جانتے ہی ہیں مگر دنیا شاید اس سے بھی زیادہ جانتی ہے،،، کیوں کہ انہوں نے اس حوالے سے رپورٹ مرتب کرنا ہوتی ہے۔ اور پھر رینکنگ قائم کرنا ہوتی ہے۔ اس سال بھی پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ یہ رپورٹ رواں ہفتے ہی ’’ہیومن رائٹس پریکٹسز رپورٹ2023‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی ہے،،، اس کے مطابق 2023ء کے دوران انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان میں کوئی اہم تبدیلی نہیں آئی اور 2023میں بھی کئی خلاف ورزیاں جاری رہیں۔ رپورٹ میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں، تشدد، اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں، جیل کی صورتحال، ماورائے قانون حراستیں، سیاسی بنیادوں پر لوگوں کی پکڑ دھکڑ، لوگوں کے نجی معاملات میں غیر قانونی مداخلت، کسی شہری کے مبینہ جرم کی پاداش میں اس کے گھر کے افراد کو سزا، آزادی اظہار رائے، میڈیا اور صحافیوں پر قدغنیں اور دیگر کئی موضوعات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔جبکہ تحریک انصاف اور اُن کے رہنمائوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اُ ن پر بنائے گئے کیسز سیاسی ہیں۔ مزید کہا ہے کہ پاکستان کا قانون حکومت کو دہشت گردوں اور فرقہ وارانہ تشدد کے الزام میں زیر حراست افراد کے کیسز انسداد دہشت گردی کی عدالتوں (اے ٹی سی) میں چلانے کی اجازت دیتا ہے۔اکثر حکام ہائی پروفائل کیسز کو تیزی سے نمٹانے کی غرض سے انسدادِ دہشتگردی کی عدالتوں میں چلانے کی کوشش کرتے ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ آیا ان مقدمات کا دہشت گردی سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں۔رپورٹ کے مطابق جولائی 2023 میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت کی جانب سے پاکستان تحریکِ انصاف کے 22 رہنماؤں اور کارکنان بشمول سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی بہنوں کے خلاف لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس پر حملے کے الزام میں مجرم قرار دینے کا عمل شروع کیا گیا۔سیاسی جماعتوں پر پابندیوں سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 9 مئی کوبانی پی ٹی آئی کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پرتشدد احتجاج کے بعد حکومت نے کریک ڈاؤن کا آغاز کرتے ہوئے ہزاروں مظاہرین بشمول پی ٹی آئی کارکنان اور صحافیوں کو گرفتار کیا۔ متعدد پی ٹی آئی رہنما پابندِ سلاسل رہے جبکہ حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے۔رپورٹ کے مطابق کئی پی ٹی آئی رہنماؤں کو عدالتوں سے ضمانت ملنے کے باوجود بارہا گرفتار کیا گیا اور عمران خان کی جماعت کو متعدد مواقع پر جلسوں کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ ملک میں آن لائن میڈیا سمیت پریس پر پابندیوں سے متعلق صحافیوں کے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مارچ 2023 میں سابق وزیر اعظم کی لاہور میں تقریر کے بعد ان کی میڈیا میں کوریج پر پابندی لگا دی گئی۔ اپنی تقریر میں بانی تحریک انصاف نے الزام لگایا تھا کہ انھیں اقتدار سے ہٹائے جانے کے پیچھے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا ہاتھ تھا۔رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگست 2023 میں پی ٹی آئی کے حامیوں اور ہمدرد سمجھے جانے والے صحافیوں کے ٹی وی پر آنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ پھر آپ گزشتہ ماہ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ دیکھ لیں،،، جس کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں نو مئی کے بعد ہونے والے پر تشدد واقعات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نو مئی کو فوجی تنصیبات اور املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف حکومت کی جانب سے مظاہرین اور ان کے اہلِ خانہ کی گرفتاریاں، سیاسی وابستگیاں رکھنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا اور انہیں جیلوں میں ڈالا گیا۔پاکستان کی حکومت اور حکام ان پرتشدد مظاہروں کو ایک منظم سازش قرار دیتے ہیں جب کہ تحریکِ انصاف ان واقعات سے لاتعلقی ظاہر کرتی ہے۔ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ 2023 میں پاکستان میں برطانوی دور کے بغاوت یا اس پر اکسانے سے متعلق قوانین کو بالخصوص سیاسی مخالفین اور صحافیوں کے خلاف استعمال کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ خیر ہم یہ نہیں کہتے کہ امریکی اداروں کی ہر بات سچی ہے،،، لیکن یہ وہ باتیں ہیں جو اس وقت زبان زد عام ہیں۔ ظاہر ہے یہ رپورٹس دنیا بھر کے عالمی اداروں نے بھی پڑھی ہوں گی، عوام کی نظر سے بھی گزری ہوں گی،،، اوردنیا کے بڑے بڑے سرمایہ داروں نے بھی اس رپورٹ کو پڑھا اور پرکھا ہوگا۔ اس لیے ان رپورٹس کی وجہ سے ہوتا یہ ہے کہ آپ کے ملک میں کوئی بھی سرمایہ دار نہیں آتا،،، وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کا کاروبار یہاں محفوظ نہیں ہے،،، لہٰذاہمارے کرتا دھرتائوں کو یہ بات سوچنا ہوگی کہ وہ اس ملک کے ساتھ کیا کھلواڑ کر رہے ہیں؟ اور عالمی ادارے کیوں چیخ چیخ کر ان کے بارے میں اپنی روداد کھول کر بیان کر رہے ہیں، ہمارے فیصلہ کرنے والوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اس وقت داخلی اور خارجی حالات بہت بدل چکے ہیں، عوام کا مزاج اور سیاسی نظریہ بھی۔ اگر نہیں بدلے تو ہمارے حکمران ٹولے جو سیاسی نظام کو روایتی انداز میں چلانا چاہتے ہیں۔ انہیں زمینی تبدیلی کا یا تو ادارک نہیں یا وہ ابھی بھی تحریک انصاف سے خوفزدہ ہیں،،، خدا کرے کہ سب کو ہوش آ جائے‘ سب ایک دو قدم پیچھے ہٹیں اور قومی اور ملکی مفاد کو محدود ذاتی مفادات سے الگ کرکے دیکھیں۔ طاقت اور زور آوری ویسے تو انسانی المیوں میں سرفہرست ہیں مگر حکمرانوں میں اس کے علاوہ کچھ اور سرے سے ہے ہی نہیں۔ برا نہ منائیں تو عرض کروں کہ قومی مفادکا تعین اگر سمٹ کر چند ہاتھوں میں رہ جائے تو وہی ہو گا جو ہوتا آیا ہے۔ وہ چلے جاتے ہیں مگر نتائج کا سامنا پوری قوم کرتی ہے۔بقول شاعر اسی سے قرض چکائے ہیں میں نے صدیوں کے یہ زندگی جو ہمیشہ ادھار رہتی ہے